ڈاکٹر کول
اس پورے نظام کو وضع کرنے والے شخص ڈاکٹر سعود عبدالغنی نے بی بی سی کو بتایا کہ قطر دنیا بھر سے آنے والے فٹبالرز کے اپنے وطن چلے جانے کے بعد بھی ملک کی خدمت کرنے کے لیے ایک میراث بنانا چاہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ برسوں کی تحقیق اس چیز پر کی گئی جسے وہ 'تھرمل کمفرٹ' کہتے ہیں، جس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے خوشگوار ہو۔
ایک کھلاڑی کیا سوچتا ہے؟
حجر صالح قطر کی قومی خواتین کی فٹ بال ٹیم کی دفاعی کھلاڑی ہیں اور 11 سال کی عمر سے کھیل رہی ہیں۔ وہ انتہائی شدید موسم میں اعلیٰ سطح پر کھیلنے کے تقاضوں کے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نمی سب سے بڑا چیلنج ہے۔
’ہم گرمی کے عادی ہیں، لیکن جب آپ گرمی اور نمی کو یکجا کرتے ہیں تو چیزیں زیادہ مشکل ہو جاتی ہیں۔‘ حجر صالح
حجر کو نئے ایئر کنڈیشننگ سسٹم کے ساتھ دو نئے مقامات، خلیفہ اور ایجوکیشنل سٹی سٹیڈیم میں کھیلنے کا تجربہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سے بہت فرق پڑتا ہے، خاص طور پر جب جون میں کھیلنا ہو، جو قطر میں سال کے گرم ترین مہینوں میں سے ایک ہے۔
کیا یہ نظام پائیدار ہے؟
قطر 22 کے منتظمین کا وعدہ ہے کہ پورے سٹیڈیم کو ٹھنڈا کرنے کے عمل میں گرین ہاؤس گیسوں کا اضافی اخراج نہیں ہو گا، کیونکہ اس کے لیے درکار بجلی شمسی توانائی کے نئے کارخانے سے آتی ہے۔
لیکن پورے ٹورنامنٹ کو کاربن نیوٹرل یقینی بنانا بہت دلیرانہ خواہش ہے۔
کاربن کی مجموعی مقدار- یہ سٹیڈیم کی تعمیر کے دوران پیدا ہونے والا اخراج ہے- مقامات کے مجموعی کاربن فٹ پرنٹ کا نوے فیصد ہے، جس میں اندازاً آٹھ لاکھ ٹن گرین ہاؤس گیسیں فضا میں خارج ہوئیں۔ امریکہ کے تحفظ ماحولیات کے ادارے کے اخراج کیلکولیٹر کے مطابق یہ دنیا کے گرد ایک کار میں 80 ہزار مرتبہ سفر کرنے کے برابر ہے۔
سٹیڈیمز سے باہر دیکھیں تو ورلڈ کپ کے لیے نقل و حمل کا ماحولیاتی اثر ہے، جس میں شائقین کو لانے اور لے جانے والی پروازیں بھی شامل ہیں۔
فیفا کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ میں مقابلوں کے مقامات کے درمیان مختصر فاصلے کا مطلب ہے کہ قطر میں سفر سے مضرِ ماحول گیسوں کے اخراج کا تخمینہ 2018 میں روس کے ورلڈ کپ میں پیدا ہونے والی گیسوں سے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔
لیکن سبز وعدوں کو پورا کرنے کی کلید یہ ہوگی کہ منتظمین پہلے سے خارج ہونے والی تمام کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تلافی کے لیے کس طرح کاربن آفسیٹنگ کا استعمال کرتے ہیں۔
ابھی تک یہ بہت واضح نہیں ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے کی امید کیسے رکھتے ہیں۔ فیفا کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے اخراج کو پورا کرنے کے لیے کاربن کریڈٹ کئی مختلف ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے کاربن میں کمی کے منصوبوں کے ذریعے پیدا کیے جاتے ہیں، جن میں توانائی کی کارکردگی، فضلے کے انتظام، قابل تجدید توانائی اور ممکنہ طور پر جنگلات یا فطرت پر مبنی منصوبے شامل ہیں۔ تاہم ابھی تک منصوبوں کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
اس طرح کے منصوبے، جیسے درخت لگانے سے کاربن کے موثر حصول میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ بی بی سی کی ایک حالیہ تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ کچھ جنگلات جو آف سیٹنگ کے لیے لگائے گئے ہیں وہ صرف کاغذ پر موجود ہیں۔
اس لیے ابھی کچھ وقت لگے گا جب ہم صحیح معنوں میں یہ فیصلہ کر سکیں کہ آیا قطر نے واقعی اپنے سبز اہداف حاصل کر لیے ہیں یا پائیداری کے دعوے صرف گرم ہوا کے سوا کچھ نہیں۔
قطر اب بھی 30 ہزار تارکین وطن مزدوروں کو درپیش حالات اور سٹیڈیم کی تعمیر کی اس انسانی قیمت پر ہونے والی تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں جبری مشقت، کام کے ناقص حالات، ناقص رہائش، غیر ادا شدہ اجرت اور پاسپورٹ ضبط کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔
قطری حکومت ان دعووں کو قبول نہیں کرتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ 2027 سے اس نے غیرملکی کارکنوں کو زیادہ گرم موسم میں کام سے روکنے، ان کے اوقاتِ کار میں کمی اور ان کے رہائشی حالات میں بہتری کے لیے اقدامات کیے ہیں تاہم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، صرف 2021 میں قطر میں 50 مزدور ہلاک اور 500 سے زیادہ شدید زخمی ہوئے اور ورلڈ کپ سے منسلک منصوبوں میں حصہ لینے والے تمام افراد میں سے 37,600 زخمی ہوئے۔ صحرائی ریاست ان اعدادوشمار سے اتفاق نہیں کرتی۔ یہ میدان سے باہر ایک اور معاملہ ہے جہاں قطر کے ریکارڈ پر کڑی نظر رکھی جاتی رہے گی۔